روایتی شادی --- زوال کا شکار کیوں؟

شادی کی رسم اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان کا وجود۔اس کی ابتداء دنیا کے پہلے انسان حضرت آدم ؑ اور حضرت حوا ؑ کے نکاح سے ہوئی لیکن آج یہ روایت ناپید ہوتی جارہی ہے۔   باوجود یہ کہ اس وقت دنیا بے شمار مسائل سے دوچار ہیں، روایتی شادیوں میں کمی ایک انتہائی سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ پچھلے چار دہائیوں میں دنیا بھر میں آبادی کے حوالے سے جتنے بھی سروے ہوئے اس میں انسانی آبادی میں بے انتہا زیادتی سے لوگوں کو خبردار کیا گیا، اور بڑھتی آبادی کو محدود کرنے کےلئے بڑے پیمانے پر این جی اوز اور تشہیر پر پیسے بھی خرچ کئے گئے۔ لیکن اس کے برعکس، ماضی قریب  میں کئے جانے والے بے شمار سروے کسی روشن مستقبل کی نوید ہرگز نہیں سُناتے۔  اس وقت دنیا کے بڑے معاشی قوتوں کو مستقبل میں آبادی ، بلخصوص نوجوان آبادی کی کمی تشویش کا شکار کئے ہوئے ہیں۔ جس کی ایک بڑی وجہ ان ممالک میں روایتی شادیوں کی کمی  اور پرورش کے خوف سے بچوں کو پیدانہ کرنا ہے۔

شادی بنیادی طور پر دو انسانوں (مرداور عورت) کی باہمی رضامندی کا نام ہے۔ ایسی رضامندی کہ دونوں  ہر دکھ درد میں ایک دوسرے کے رفیق ہونگے۔  شادی ایک ایسے عزم کا نام ہے جس میں ایک مرد اور عورت بنیادی انسانی فریضہ کے تحت دنیا کو آگے لے جانے اور مزید بہتر انسان دینے کا تہیہ کرتے ہیں۔ شادی کو ایک مضبوط روایت بنانے کے پیچھے مذہب، انسانی نفسانی خواہش، معاشی سہارا، اور معاشرتی حیثیت (Social Status)کار فرما ہیں۔ یہ وہ بڑے وجوہات ہیں جن کی وجہ سے معاشرے میں روایتی شادی کی رسم پروان چڑھی ہے۔ انسان شادی بنیادی طور پر مذہبی اور معاشرتی دباو کی وجہ سے کرتا ہے، یا پھر نفسانی خواہشات کی تسکین کے لئے۔ مزید یہ کہ تاریخی طور پر مخصوص سماجی ڈھانچے، جس میں ایک عورت کا معاشی طور پر ایک مرد پر انحصار ہوتاہے،  نے بھی عورت کو شادی کے بندھن  میں بندھنے پر مجبور کیا۔  لیکن موجودہ دور کے سماجی ڈھانچے،  جہاں عورت مرد کے شانہ بشانا کام کرسکتی ہے اور خود کفیل زندگی گزار سکتی ہے، نے شادی کی روایت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔

            دنیا میں اس وقت عمومی طور پر تین مختلف نسلیں آباد ہیں۔ ایک وہ نسل جو 1965 سے 1980 کے دوران پیدا ہوئی ہے جسےجنریشن ایکس  Generation X) (کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ دوسری نسل وہ جو 1981 سے لیکر 1996 کے دوران پیدا ہوئی ہے جس کو جنریشن وائے Generation Y) /Millennials )کہا جاتا ہے ۔ اور تیسری نسل ، جس کا میں خود بھی ایک رکن ہو، 1997 سے لیکر آج تک پید ہونے والی نسل ہے جسے  جنریشن زیڈ(Generation Z)کہا جاتا ہے۔  تعارف کا مقصد ایک حوالے کا ذکر کرنا ہے کہ پیو ریسرچ سینٹر (Pew Research Center)کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت  جنریشن وائے   (Gen Y)نسل کے تقریبا 56 فیصد افراد شادی نہیں کرنا چاہتےہیں۔ اور ایک اور سروے کے مطابق  (Gen Z)سے تعلق رکھنے والے افراد میں صرف ایک تہائی لوگ ہی شاید روایتی طور پر شادی کے بندھن میں بندھ جائیں۔ گوکہ اسلامی ممالک میں یہ شرح  مختلف ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہاں روایتی شادی کے رسم سے بیزاری دکھانے والے افراد کی تعداد کم ہے۔

            مغرب میں جن وجوہات کے بنا پر شادی کی رسم معیوب  اور ناپید ہورہی ہے ان میں مہنگائی ، شرح طلاق میں تیزی سے اضافہ ، شادی کے معائدے کا ڈر، اور بچوں کی پرورش شامل ہیں۔ دنیا بھر میں مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ اور یہاں تک کہا جارہا ہے کہ "انسان ہونا ہی انتہائی مہنگا ہے"۔ مہنگائی ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کی وجہ سے ناصرف  مغرب ، بلکہ اکثر وبیشتر مسلم ممالک میں بھی شادیاں تعطل کا شکار ہیں۔ گو کہ اس میں ثقافتی روایات(Cultural Norms) کا بھی ایک اہم کردارہے، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بڑھتی مہنگائی اور مال و زر کی کمی کی وجہ سے کروڑوں نوجوان لڑکےاور لڑکیوں کی شادیاں تعطل کا شکار ہیں۔

اس کے علاوہ مغرب میں بڑھتی ہو ئی شرح طلاق روایتی شادیوں کی راہ میں دوسری بڑی رکا وٹ ہے۔  ایک محتاط اندازے کے مطابق مغرب میں 60 سے 70 فیصدشادیاں ناکام ہورہی ہیں۔جس میں 70 فیصد خلاح/ طلاق کے دعوے/کیسز  عورت کی مدعیت میں داخل کیے جاتے ہیں۔ اور ان کیسز کی تعداد 90 فیصد تک بڑھ جاتی ہیں اگر عورت کالج کی ڈگری یا فتہ ہو۔ اس بارے میں مغربی مرد یہ تا ثررکھتے ہیں کہ مغربی عورتیں صرف مال ودولت ہتھیانے اور وقتی  طور پرخوشی حاصل کرنے کیلے مرد وں سے شادیاں ر چاتی ہیں۔  کیونکہ ریاستی مشینری عموما عورت کو ہی سپورٹ کرتی ہے ، لہذا مغربی معاشرے میں طلاق کا زیادہ نقصان مرد کو ہی برداشت کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے مغربی مرد شادی سے گریزا ہیں۔

            مزید یہ کہ مغرب میں شادیاں ایک معائدے(Contract) کے تحت وجود پاتی ہیں۔ جسں میں عام طور پر مرد پر طلاق کی صورت میں بڑے جرمانے عائد کئے جاتے ہیں۔ جیسا کہ حال ہی میں دنیا کے دو امیر ترین مردوں کے ساتھ ہوا جہاں مائیکروسافٹ کے بانی  بل گیٹس اور امیز ون کے مالک جیف بیزوز کے طلاق واقع ہو نے پرانہیں اپنی آدھی سے زیادہ دولت اپنی بیویوں کو دینی پڑی۔ جب مرد یہ دیکھتا ہے کہ خلاح/طلاق کی صورت میں اسے اپنی بیوی کو اپنی آدھی دولت دینی پڑے گی تو بیوی رکھنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟  بدقسمتی سے معائدے کے تحت طے پانے والی شادیاں (Contracted Marriages)آج اسلامی ممالک ، بلخصوص پاکستان میں بھی رائج ہیں  اور ان شادیوں کی پائیداری  ملک میں طلاق کی بڑھتی شرح سے بخوبی آشکارہ ہے۔ ان معائدہ زدہ شادیوں میں جہاں مرد کو  سخت معا ئدوں کی زنجیروں میں جھکڑا جاتا ہیں ، وہی  عورت کو ان معائدوں کی وجہ سے مزید حوصلہ ملتا ہیں  کہ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات پر بھی  خلاح لینے عدالت پہنچ جائے ۔  لہذا  کافی  مرد اور عورتیں شادی کی ناکامی کے خوف سے شادی ہی نہیں کرتیں۔

اس کے علاوہ مغرب میں بچوں کی پرورش ایک دیرینہ مسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے بنیادی وجوہات میں ماضی کے فیصلے اور  موجودہ معاشی تنگی شامل ہے۔ خاص کر مغرب میں جہاں ایک تو آبادی کم کرنے کے لئے دہائیوں تک بچے پیدانہ کرنے کی ترغیب دی جاتی رہی اور اب مہنگائی کے اس عالم میں بچے    پیدا کرنے کی مزید حوصلہ شکنی ہوری ہے۔ مشرقی ممالک جو قدریں غریب ہے وہاں ابھی تک آبادی اس  وجہ سے بڑھ رہی ہے کہ یہاں خاندان یہ سوچ کر زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں کہ اس  سےخاندان کی معاشی   اور معاشرتی حیثت میں بہتری آجائے گی۔  جبکہ مغرب  میں حقیقت اس کے بلکل برعکس ہے جہاں  عمومی طور پر خاندان بن باپ ہی ہوتے  ہیں لہذا بچوں کی پرورش اکیلی والدہ (Single Mother) پر ایک بوجھ ہی ہوتا ہے۔  

یہ وہ حالات ہیں جن کے پیش نظر مغربی مرد اور عورت دونوں میں روایتی شادی سے اکتاہٹ پیدا ہو چکی ہے۔ مغرب میں مرد اب اس نظریہ پر عمل پیرا ہے کہ  (Rent them, but don’t buy them) اور عورت اپنی (بر ائے نام) سماجی اور معاشی آزادی کے آ ڑ میں شادی کے بند ھن میں نہیں بند ھنا چاہتی  کیونکہ نہ ہی وہ گھر میں روایتی بیوی کہ طور پر  رہ کر بچوں کی پرورش کر سکتی ہے اور نہ ہی شوہر کی تعبداری۔  آج کی عورت مرد سے شادی کے بجائے اپنی نوکری سے شادی کرچکی ہے۔ وہ خود کو کسی بھی طرح مرد پر منحصر نہیں سمجھتی ۔ لہذا کسی بھی قسم کے سماجی خاندانی اور مذہبی دباو کی کمی کی وجہ سے مغربی معاشرے میں روایتی شادی کی رسم نا پید ہوتی جارہی ہے۔

 جہاں تک بات رہی پاکستان کی تو یہاں گوکہ  ناجائز جنسی تسکین کے زرائع دن بدن ترویج پارہے ہیں مگر معاشرتی ، مذہبی اور خاندانی دباو کی وجہ سے روایتی شادی کی طلب  بہرحال زیادہ ہے۔ باوجود اس کہ ایک حالیہ سروے کے مطابق  پاکستان میں اس وقت  ساڑھے چار کروڑ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں غیر شادی شدہ ہیں۔ مگر شادی کی خواہش بہر حال موجود ہے۔  وجہ چاہے خاندانی  یا  مذہبی دباو ہو، یا جنسی   تسکین کے زرائع کی کمی ، لیکن اگر ہمارے اس  معاشرے میں جنسی بے راہ روی کو نہ روکا گیا اور مخصوص ثقافتی رسومات کو ختم نہ کیا گیا تو وہ وقت یہاں بھی دور نہیں جب یہاں بھی  روایتی شادی زوال پذیر ہوجائے گی۔   لہذا شادی کی روایت کو پروان چڑھانے کے لئے مذہبی اصولوں کے مطابق معاشرتی اقدار کو متعین کرنا ہوگا اور اس پر سختی سے عمل کرنا ہوگا اور اس روایت پر عمل کرنے کو حد درجہ آسان کرنا ہوگا۔

خلاصہ یہ کہ مغربی معاشرہ اس وقت صرف انسانوں کا ایک اکھاڑہ بن چکا ہے جہاں" جسم زدہ " انسان تو رہتے  ہیں  مگر انسانی   اوراخلاقی اقدار کا دور دور تک کوئی وجود نہیں ملتا۔ وجہ چاہے ما ضی کے فیصلے ہو یا جدید معاشی تنزلی ، آج مغرب اس حقیقت کا اقرار کر چکا ہے کہ  مغربی معاشرہ شدید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس حقیقت سے ہمیں  یہ سبق سیکھ لینا چاہیے کہ اپنے  مذہبی اور معاشرتی اقدار کا تحفظ کریں اور ان کو مزید پروان چڑ ھائیں۔  کیونکہ اگر مادیت پرستی میں کامیابی ہوتی تو  ترقی یافتہ ممالک (چین اور چاپان ) پیسے دے کر  اپنی عوام  کو شادی کرنے پر مجبور نہ کرتیں، اور بچے پیدا کرنے پر مختلف مراعات نہ دیتے۔ لہذا دنیا کو ایک اچھی تربیت یافتہ نسل دینا ہر انسان کا ایک  بنیادی فریضہ ہے اور اس کی تکمیل بہترین اسلامی اصولوں کی پاسداری ہی کے ذریعے ممکن ہیں۔

Comments