داستان سُنانے کی صلاحیت تو حُسین نصیر (بلوچی گلوکار) اور محمد ابراہیم (پشتو گلوکار) جیسے مایہ ناز
فنکاروں میں موجود ہو۔ ہم تو صرف چند معروضات اور حقائق پیش کرنے کی جسارت کرنا
چاہتے ہیں۔لہذا موضوع کے آخری لفظ پر بات کرتے ہوئے ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ
موجودہ معاشی بدحالی کی وجہ سے غربت اور مہنگائی کا جس قدر شوروغل مچا ہوا ہے اس
قدر شاید ہونا نہیں چاہیئے۔ یقینا موجودہ کمر توڑ مہنگائی نے کروڑوں لوگوں کے روز
مرہ زندگی کے مشکلات میں بےپناہ اضافہ کردیا
ہے لیکن جو سوال میرے ذہن کو کھٹکتا ہے وہ یہ کہ "کیا آج کی غربت آج سے ایک
صدی پہلے یا حتیٰ کہ نصف صدی قبل کی غربت سے زیادہ ہے؟"
بنیادی ضروریا ت جیسےکہ "روٹی ، کپڑا ، مکان "
بنیادی سہولیات ِصحت اور تعلیم سے محرومی کو غربت کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مختلف
ممالک میں غربت کو ماپنے کے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ مختلف مستند سروے
کے مطابق دنیا کی کل آبادی کے تقریبا دس فیصد(10%) لوگ اس وقت
غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزازنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ پاکستان میں مجموعی طور پر
بائیس فیصد (%22)
لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے علاوہ (39.3%) فیصد ایسے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی
گزار رہے ہیں جن کا تعلق کم درمیانہ آمدنی (lower middle income class)والی آبادی سے ہیں ،جو کہ کم از کم)($3.2 امریکی ڈالرروزانہ کماتے ہیں۔ یقینا موجودہ معاشی مشکلات کی وجہ
سے یہ تعداد کافی گناہ بڑھ چکی ہوگی۔
غربت کی لکیر کا تعین یوں تو مختلف عوامل پر انحصار کرتا ہے
لیکن آسانی کیلئے اسے گروہ (class) کی درجہ بندی کی بنیاد پر بیان کرنا آسان
ہے۔ یعنی کوئی بھی شخص(خصوصا پاکستان میں) جس کی کم از کم آمدنی1.90) ($امریکی ڈالر سے کم ہو یا پھر ماہانہ)13 ($امریکی ڈالر سے کم ہو تو وہ شخص غربت کی لکیر سے نیچے تصور ہوگا۔ اس مد میں
تاریخی اوراک کا مطالعہ کرنے پر یہ پتہ چلتا ہے کہ جنگی حالات سے ہٹ کر پاکستان کی
تاریخ میں سال 2015 ءمیں غربت کی
لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعدادمجموعی طور پر سب سے زیادہ( 29.5%) فیصد رہی۔ جبکہ اسی دوران($1.90) امریکی ڈالر
سے کم کمانے والوں کی تعداد (47.2%)فیصد رہی۔ یہ تمام اعداد وشمار دیکھنے کے بعد اس سوال کا
جواب ڈھونڈنا انتہائی لازمی ہے کہ "کیا اعداد و شمار کےاعتبار سے تاریخ میں سب سے زیادہ غربت تصورہونے والی شرح
کسی بھی صورت آج سے ایک صدی یا نصف صدی پہلے کی غربت سےحقیقی معنوں میں زیادہ ہے؟ "
اس سوال کا جواب چند مشاہدات ، کہانیوں ، اور ذاتی تجربے
اور علم کے بنیاد پر ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بڑوں کی بیٹھک اور ان کی صحبت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آج سے
نصف صدی قبل مال و دولت کی انتہائی قلت ہوتی تھی۔ یعنی پورے محلے ، علاقے میں کسی
ایک شخص کے ساتھ گاڑی کا ہونا ، ممکن ہے کہ اُس وقت گاڑیوں کی شرح پیداوار انتہائی کم تھی، لیکن
پھر بھی چند ہی گھرانوں اور افراد کو یہ سہولت میسر تھی۔ اس کے علاوہ دوسری
سہولیات جیسے سواری کیلئے سائیکل،تفریح کیلئے ٹی وی (TV) ، یا ابتدائی
دور میں موبائل کا چند ہی لوگوں کے پاس
ہونا اِس کی مثالیں ہیں۔
اس کے علاوہ کھانے پینے اور رہن سہن کے عادات کا اگر معائنہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس
زمانے میں امیر سے امیر ترین گھرانوں میں انتہائی سادہ اور چند ہی اقسام کا کھانا
پیش یا تناول ہوتا تھا ۔لباس سادہ اور انتہائی محدود تعداد میں ہوتا تھا، یعنی
شاید ہی کسی شخص کے پاس پانچ سے دس جوڑے
کپڑے بیک وقت موجود تھے۔ اس جیسے مختلف اسباب و عوامل کا موازنہ کیا جاسکتا ہے ۔
لیکن چونکہ میں نے داستان تو لکھنی نہیں تو آپ زرا خود ہی غورفرمالیں۔
اب ذرا آج کے اس موجودہ دور کا موازنہ کریں تو معلوم ہوگا
کہ غریب سے غریب گھر میں ایک قسم یا سادہ
کھانا تناول نہیں کیا جاتا (چند انتہائی
سفید پوش لوگ ضرور ہونگے)، اسکے علاوہ اسباب کا موازنہ کیا جائے تو اس وقت ہر گھر
میں کسی بھی صورت میں ایک سے زیادہ سواری ضرور موجود ہیں۔ یہاں تک کہ گھر کے ہر
فرد کی سواری الگ متعین اور موجودہیں۔ موبائل غریب سے غریب آدمی کے ساتھ ہوگا اور
کم از کم قیمت دس سے پندرہ ہزار سے اوپر ہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر گھر میں ٹی وی
اور کمپیوٹر جیسے تفریحی ٹیکنولوجی موجود
ہے ۔ مزید یہ کہ لباس اتنا شہانہ کہ شاید قارون اور فرعون کو بھی رشک آجائے ،
بہرحال غریب سے غریب شخص کے پاس بھی بیک وقت پانچ سے دس جوڑے کپڑے ضرور موجود ہوتے ہیں۔ اسی طرح باقی تمام اشیاء ضروریہ کا
موازنہ کیا جاسکتا ہیں۔
پس ان تمام عوامل کا موازنہ کرنے سے میں ذاتی طور پر اس
نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ آج کی غربت کسی بھی صورت میں آج سے چند دہائیوں یا صدیوں
قبل کی غربت سے زیادہ شدید نہیں ہے۔ تو یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ پھر اتنا
شوروغل کیوں ؟ اور غربت کا اتنا واویلا کیوں؟
میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ اس خوف و ہراس اور غربت
کی شدد کی پریشانی دراصل میں ہماری عادتوں کے مضبوط بنیادوں پر کھڑی ناجائز
خواہشات کے عمارات کی تکمیل نہ ہونے کا ڈر ہے۔ آج سے پچاس برس قبل ایک یا دوجوڑے
کپڑوں پر گزارا کرنا یا سادہ کھانا تناول کرنا، یہ اُس دور کے لوگوں کے لئے تو آسان تھا کیونکہ انہوں نے اپنے عادات اور خواہشات دونوں کو قابو میں رکھا تھا، لیکن
میں اور آپ جو غربت کے اس حالت میں بھی اُن سے بہترکھاتے اور پہنتے ہیں، اپنی عادات اور ناجائزخواہشات کی تعبداری
کی وجہ سے اِس غربت کا مقابلہ نہ کرسکتے ہیں اور یا توپھر
کرنے سے ڈرتے ہیں۔
لہذا موجودہ معاشی بدحالی اور غربت کی شدد گوکہ سخت اور
پریشان کن ہے لیکن اس کی شدد پہلے دور جیسے نہ ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ موازنہ کیا
جاسکتا ہے۔ غربت کی پریشانی اس وجہ سے نہیں کہ ہمیں رات کی روٹی شاید نہ ملے ،
بلکہ اس وجہ سے ہے کہ مختلف اقسام کے کھانے ، ہر فنکشن کے لئے الگ کپڑے ، اور ہوٹلوں پر شاہ خرچیوں کا موقع نہیں ملے گا۔
لہذا اس کا واحد حل اپنی ناجائز خواہشات پر قابو پانا، سنت نبوی (ص) کے مطابق
زندگی بسر کرنا، اِصراف جیسے گناہ سے خود کو بچانا، اور کم سے کم پر شکر ادا کرنا
ہی ہے۔ گو کہ سیاسی اور معاشی تجزیہ نگاروں نے حالیہ معاشی زبوحالی کے بےشمار
وجوہات، دلائل، اور حل تجویز کیے ہیں لیکن غربت کے اس مشکل دور میں انفرادی جہد
کی اشد ضرورت ہے اور شایدموجودہ ملکی معاشی حالات ہمیں یہ بھولا ہوا سبق یاد
دلادیں۔ بصورت دیگر موجودہ دور ایک متشدد اُستاد کے مانند ہم جیسے نالائق شاگردوں
کو مارگرا کر ہی یہ سبق یا دلا دیں گا۔
Comments
Post a Comment